تحریر

ضمیر بکتے ہیں

وہ کہتے ہیں میرے دیس کے معاشی حالات اچھے نہیں۔ خریدوفروخت متاثر ہے۔ کاروبار ماند پڑگئے ہیں۔

میں کہتا ہوں اس دیس میں خریدوفروخت کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ میں یہاں انسانی اعضاء بیچ سکتا ہوں۔ عزت نِسواں کی بات کرتے ہو یہاں مکمل نِسواں کی خریدوفروخت بھی ممکن ہے۔ بچے بیچ بھی سکتا ہوں خرید بھی سکتا ہوں۔ ووٹ، فتویٰ، انصاف، علم، دین، رائے کے کاروبار یہاں عروج پر ہیں۔

ارے یہاں جج بکتے ہیں، وکیل بکتے ہیں، استاد و فردمِثیل بکتے ہیں۔

ظالم ہیں لیتے ہیں تلاوت کی قیمت، نعت خواں یہاں زرقلیل بکتے ہیں۔

یہاں شاعر و ادیب بکتے ہیں، علم و فنون کے ماہر طبیب بکتے ہیں

یہاں صحافت بھی بیچی جاسکتی ہے۔ دام بڑھاؤ تو نقیب بکتے ہیں۔

سچ بھی بیچ دو یہاں پر، جھوٹ کے بھی دام لگا لو۔۔

سفارش کی پرچی ہو تو سر فہرست نام لگا لو۔۔

یہاں قاضی و مختار بکتے ہیں،کچھ بند کمروں میں کچھ سربازار بکتے ہیں

کچھ بِک جاتے ہیں اوروں کے بہکانے سے، تو کچھ بعد سوچ وبچار بکتے ہیں

کہ پہلے ماعون بکتا ہے،پھر سکون بکتا ہے، گزارا پھر نہیں ہوتا تو خون بکتا ہے۔

علم کے طالب گھر چلاتے ہیں، روشن مستقبل کی آس میں جنون بکتا ہے۔

یہاں سب غریب و امیر بکتے ہیں، یہاں سب شاہ و فقیر بکتے ہیں

بک جاتی ہیں مدفن سے نکلی لاشیں، کوڑیوں کے دام ضمیر بکتے ہیں

کوڑیوں کے دام ضمیر بکتے ہیں۔۔

اور بھی بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا میں، مگر بس آخر میں ایک سوال کروں گا کہ،

حاکم بھی بِکتے ہیں،یہاں محکوم بھی بیوپاری ہیں۔

“یہ بیچ دیں اپنی ماؤں کو”، محض پیسے کے پجاری ہیں

چند مُردہ ضمیروں کی کاوش، یہ شناخت اب ہماری ہے۔

اس شناخت کو اب بدلیں کیسے؟ یہ کس کی ذمہ داری ہے؟

#حسنین_شفیق