مرزا صاحب نے حسبِ معمول ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہی اخبار تھام لیا۔ یہ ان کی عادت تھی کہ آفس جانے سے پہلے ناشتے کے دوران سرخیوں پر نظر ڈال لیتے تھے۔ مرزا صاحب ایک نامور تاجر تھے، اپنا کاروبار تھا تو حالات حاظرہ پر نظر رکھتے تھے۔ اخبار کھولتے ہی ان کے چہرے کے تاثرات بگڑ گئے۔ اخبار نیچے کیا اور گھور کر سامنے بیٹھے فرزند کو دیکھا جو اُن کو ہی دیکھ رہا تھا، آنکھیں ملنے پر نظر جھکا کر ناشتہ کرنے لگا۔ مرزا صاحب کو یہ حرکت ناگوار گزری، بیگم کی طرف دیکھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوے کندھے اچکا دیے۔ مرزا صاحب نے پھر اخبار تھاما۔ جگہ جگہ سے کٹا ہوا، تمام کٹے ہوے حصے ایک کہانی کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس کو باقاعدہ سرخ رنگ سے نمایاں بھی کیا گیا تھا۔ غیر ارادی طور پر انہوں نے اس کو پڑھنا شروع کیا، کہانی کچھ یوں تھی۔۔۔
سیٹھ نسیم گاؤں کا سب سے امیر کاروباری آدمی تھا، اس کے بارے میں گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ یہ مٹی میں ہاتھ ڈال دے تو سونا ہوجائے، سونے میں ہاتھ لگائے تو ہیرا بن جائے، عالیشان بنگلہ، مہنگی گاڑی، مختلف کاروبار، بڑی رحمت تھی اس پر اللّٰہ کی۔ آج کل زمین و جائیداد کے معاملے میں کچھ پریشان رہتا تھا۔
ایک روز گھر لوٹا، گھر کے بڑے دالان کے گیلے فرش پر اس کی گاڑی کے ٹائر چرچرا کر رکے وہ گاڑی سے اترا اور اندر کی طرف بڑھا۔ رامو(مالی) جو پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھا، اس کا دھیان بٹا، پانی کا پائپ ذرا اوپر ہوا اور پانی کی بوچھاڑ فرش پر جا پڑی جس کے چھینٹے سیٹھ نسیم کے سفید کرتے پر گئے۔ چمکتے ہوے کرتے پر فرش کی مٹی کے ساتھ ملے چند چھینٹوں نے اس سفید رنگت کی خوبصورتی کو مٹادیا۔ گو کہ سیٹھ ایک دھیمے مزاج کا حامل شخص تھا، لیکن اس وقت قابو نہ رکھ سکا اور رامو کو جھاڑ پلادی، رامو نے منمناتے ہوے معذرت پیش کرنے کی کوشش کی۔ تو سیٹھ کے گویا تن بدن میں آگ لگ گئی اس نے رامو کو اسی وقت فارغ کردیا۔ رامو خاموشی سے نظر جھکائے چلا گیا۔ اگلے دن رامو کی بیوی سیٹھ کے پاس فریاد لے کر حاظر ہوی کہ اس کو معاف کردے اس کا روزگار اس سے نہ چھین۔ پر سیٹھ کو شاید زیادہ ہی ناگوار گزرا تھا کہ اس نے معذرت قبول نہ کی۔ بات آئی گئی ہوگئی۔
چند ہفتوں بعد سیٹھ کو کاروبار میں بڑا دھچکا لگا، اس کا شراکت دار جو عرصہ سے اس کے ساتھ کام کر رہا تھا تمام وسائل سمیٹ کر سیٹھ کو دھوکہ دے گیا۔ سیٹھ نسیم بڑا پریشان ہوا کیوں کے ملازموں کی تنخواہ کی تاریخ سر پر تھی جس کو اس نے اپنی زمین سستے دام فروخت کرکہ پوری کی۔ سیٹھ کو دوسرا جھٹکہ لگا جب اس کو اگلے ہفتے معلوم ہوا کہ اس کی فصل کو کیڑا لگ گیا ہے اور پوری فصل برباد ہوگئی۔ بچی ہوی جمع پونجی سے سیٹھ نسیم نے مزید کاروبار کرنے کی کوشش کی مگر کچھ حاصل نہ ہوا، سیٹھ سونے میں ہاتھ ڈالتا تو مٹی ہوجاتا۔۔ قصہ مختصر کہ سیٹھ چند مہینے میں اس حالت میں آگیا کے اسے آخر میں اپنا گھر بیچنے کی نوبت آگئی۔ سیٹھ کی بیوی تو کافی عرصہ پہلے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی تھی، اور بچوں نے گھر بیچنے کی رضامندی ظاہر نہ کی۔ سیٹھ پریشان تھا کہ دونوں بچے راتوں رات گھر کا سودا کرکے گھر سے فرار ہوگئے۔
صبح سیٹھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ گویا اس پر کالا جادو کردیا گیا ہو۔ سیٹھ بھاگم بھاگ مولوی صاحب کے پاس گیا سارا ماجرا بیان کیا مگر کوئی حل نہ پا سکا۔ سیٹھ نیم پاگل ہو چلا تھا۔ کل تک محلوں میں رہنے والا آج سڑکوں پر پھر رہا تھا۔ دوست احباب کوئی مدد کو تیار نہ ہوا۔ بے یارو مددگار گھومتا ہوا گاؤں سے دور آ نکلا اور ایک پیڑ کے سائے تلے بیٹھ کر زاروقطار رونے لگا۔ کچھ دیر گزری تھی کہ اسے اپنے سر پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا، دیکھا تو ایک بزرگ کھڑے تھے، کیا ہوا برخوردار کیوں اس طرح رو رہے ہو؟ بزرگ کے پوچھنے پر سیٹھ نے ساری کہانی کہہ ڈالی اور پُر امید نظروں سے جواب کا منتظر ہوا۔ بزرگ نے لمبی سانس بھری۔ پھر پوچھا برخوردار کیا تم نے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کا معاملہ تو نہیں کیا؟ مطلب؟ سیٹھ ہڑبڑایا۔ مطلب یاد کرو ان مصیبتوں کے شروع ہونے سے پہلے کچھ غیر معمولی۔ سیٹھ سوچ میں پڑ گیا۔ ایسا تو کچھ نہیں ہوا سیٹھ بولا، ہاں مگر میں نے مالی کو فارغ کردیا تھا ایک چھوٹی سی بات پر جس کا مجھے افسوس تو ہوا لیکن پھر مصروفیت نے یہ بات بھلا دی۔ آہاں ۔۔۔ بزرگ کو جیسے جھٹکے سے سب سمجھ آگیا ہو، کہنے لگے برخوردار مالی کا رزق تمہارے رزق کے ساتھ نتھی (جُڑا ہوا) تھا۔ تم نے جب اس کو رزق سے بے دخل کیا تو رازق نے اس کے حصے کا رزق بھی تم سے لے لیا۔ اکثر ہمیں جو کچھ مل رہا ہوتا ہے وہ ان جیسے لوگوں کے نصیب سے ملتا ہے کہ ان کے گھر ہمارے گھر سے کاروبار سے وابستہ ہوتے ہیں ۔۔۔ سیٹھ پھٹی پھٹی آنکھوں سے بزرگ کو دیکھنے لگا۔ بزرگ اس کی آنکھوں کا مطلب سمجھتے ہوے بولے جاؤ تلاش کرو مالی کو، معافی مانگو اس سے۔ یہ کہہ کر بزرگ اپنی راہ ہولیے۔ اور سیٹھ نسیم سیدھا رامو کے گھر جا پہنچا، دستک دی، کسی اجنبی نے دروازہ کھولا۔ رامو سے ملنا ہے مجھے رامو مالی سے، سیٹھ جلدی سے بولا۔ معاف کیجیے گا حضرت رامو بھائی تو یہ گھر بیچ کر کسی دوسرے گاؤں چلے گئے ہیں اور جہاں گئے ہیں میں اس کا پتہ نہیں جانتا۔
کہتے ہیں اس دن سے سیٹھ نیم پاگل سے پورا پاگل ہو گیا اور بس رامو مجھے معاف کردے کی صدائیں لگاتا گلیوں میں، بس اڈوں پر، ایک گاؤں سے دوسرے اور تیسرے در بدر پھرتا رہتا ہے۔
اجی چائے ٹھنڈی ہوگئی ہے، وقت دیکھیں آپ نے تاخیر بھی کردی ہے آفس جانے میں، آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ بیگم نے ٹہوکا مارا تو مرزا صاحب اصل دنیا میں آئے، ان کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ فرزند والد کی حالت کو سمجھتے ہوے مخاطب ہوا، بابا! آپ نے بھی دو دن پہلے چاچا فضل کو فارغ کریا تھا، ان کے بیٹے سے میری دوستی ہے وہ بتا رہا تھا کہ ان پر قرض بھی ہے اور چاچا فضل بہت زیادہ پریشان ہیں، بابا میں آپ کو سیٹھ نسیم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا۔ مرزا صاحب فوراً اٹھے، بیٹے کو گلے لگایا، کمرے کی طرف دوڑے، تجوری میں سے کچھ رقم نکالی اور تیزی سے باہر نکل گئے، سنیے کیا ہوگیا ہے ناشتہ تو کرلیں جوتے تو پہن لیں ۔۔۔ بیگم کی آواز بڑھتے فاصلے کے ساتھ مدھم ہوتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔