لوگ پوچھتے ہیں آپ کی اردو اچھی کیسے ہے؟ دوست پوچھتے ہیں تم سگنل کیوں نہیں توڑتے؟ خالی بوتل لے کر کچرادان کی تلاش کیوں کرتے ہو؟ حالانکہ ہر طرف اس جیسی ہزاروں پہلے سے پڑی ہوی ہوتی ہیں۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ تیری ایک بوتل نہ پھینکنے سے تیرا شہر صاف نہیں ہوگا۔ اور میں کہتا ہوں کم سے کم اسے گندا کرنے میں میرا نام بھی شامل نہیں ہوگا۔ پھر مجھے ایک کہانی یاد آجاتی ہے۔ مختصر سناتا ہوں۔
راموکسان کھیت سے واپس گھر جارہا ہے۔ رستے میں دیکھتا ہے کہ طوطا اپنے پیر آسمان کی طرف کیے لیٹا ہے۔ رامو پوچھتا ہے میاں کیوں اس طرح لیٹے ہو۔ طوطا کہتا ہے مجھے خبر ملی ہے کہ آسمان گرنے والا ہے۔ رامو ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ اول تو ایسا کچھ ہوگا نہیں اور ہو بھی رہا ہے تو تم کیا اپنے ان ننھے پیروں پر آسمان روک لوگے؟ طوطا جواب دیتا ہے نہیں! مجھے علم ہے میں اس کو روک نہیں سکتا۔ لیکن کوشش تو کرسکتا ہوں۔
خیر واپس موضوع پر آتا ہوں کہ یہ سب کیوں ہے؟ میں سمجھتا ہوں اس کی ایک وجہ مطالعے کا شوق ہے۔ اور یہ شوق مجھ میں میرے بہن بھائیوں کے ذریعے آیا جب وہ ہر ماہ ہمدرد نونہال گھر میں لاتے تھے۔ اس وقت کی پڑھی ہوی کہانیاں آج بھی مجھے مختلف وقتوں میں یاد آتی ہیں۔ جیسے یہ رامو کسان کی کہانی۔ شاید اسی لیے جب بھی میں سگنل توڑنے لگتا ہوں یا بوتل پھینکنے لگتا ہوں یا اس جیسے اور کام۔ وہ طوطا کہیں سے روک لیتا ہے کہ تمہاری کوشش سے یہ ٹھیک ہو نہ ہو، لیکن کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
آپ میں سے جو والدین یا گھر میں بڑے بہن بھائی ہیں۔ ان کو یہ مشورہ دوں گا کہ گھر میں اس طرح کے رسالے بچوں کے لیے لایا کریں بچپن میں ذہن میں رہ جانے والی چیزیں ساری زندگی ساتھ چلتی ہیں۔ کوشش کریں اچھی باتیں ہی ذہن میں رہیں۔ جیسے ایک جگ اگر پانی سے بھرا ہو تو اس میں سے نکالنے پر پانی ہی نکلتا ہے رس نہیں۔ اسی طرح انسان کے ذہن سے بھی وہی نکلتا ہے جو اس کے اندر ڈالا گیا ہو۔